کیا عورت کو معاشرے میں عز ت اور مقام پانے کے لیے عبایہ یا مشرقی لباس کا پہنا ضروری ہے؟

کیا عورت کو معاشرے میں عزت اور مقام پانے کے لیے عبایہ یا مشرقی لباس کا پہنا ضروری ہے؟

یہ وہ سوال ہے جس نے مجھے یہ بلاگ لکھنے پر مجبور کیا! بین الا قوامی خواتین کے مو قع پر ہر کوئی عورت کی آزادی کے بارے میں بات کرتا ہے لیکن اصل میں عورت اس وقت تک آزادی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتی جب تک مرد کی سوچ عورت کے لباس کو لے کر تبدیل نہیں ہوگی۔
اگر عورت مشرقی لباس پہنے تو وہ قابلِ احترام اور اگر وہ ہی عورت مغربی لباس پہنے تو وہ قابلِ احترام نہیں
۔ اس کو ایسے گھورا جاتا ہے کہ انسان اپنی ہی نظروں میں شرمندہ ہو جائے ! پچھلے چند دنوں سے میں بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار ہوں ۔ میں ایک خودعتماد بہادر لڑکی ہوں ۔مجھے زندگی کے کیسی دور میں ایسا نہیں لگا کے میں نے کچھ بھی عجیب و غریب پہن رکھا ہے اور دراصل میں ،میں ایسا لباس پہنتی بھی نہیں جس سے عریانیت جھلکے ۔ لیکن ان چند دنوں میں مجھے ایسا محصوص ہوا کے میں مردوں کی نگاہوں کا نشانہ بن رہی ہوں ۔ اس تمام تر صورتِ حال کو دیکھ کر دماغ میں یہ سوال آتا ہے کہ کے کیا مشرقی مردوں کا معیارِ عزت لباس میں چھپا ہے۔۔۔ مغرب کے ایجاد کردہ کمپیوٹراستعمال کرتے ہوے ہاتھ میں مغربی موبائل فون پکڑے ہوے مغربی پینٹ شرٹ پہنے ہوے مرد جب کیسی عورت کو مغربی لباس میں دیکھتے ہیں تو اس کے کردار پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ضروری تو نہیں کے عورت اگر ماڈرن ہے تو وہ ہر ایک سے دوستی کرلے گی یا اگر وہ کیسی سے خوش اخلاقی سے بات کرلے تو اس کا مطلب غلط نکالا جائے ۔
اگر ایسی ہی متوسط سوچ رکھنی ہے تو ہمارا اتنے پڑھنے لکھنے کا کیا فائدہ جب سوچ وہ ہی بوسیدہ رہے میرے خیال میں پاکستانی معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کے ہمارے معاشرے میں تربیت صرف اور صرف بیٹی کی ہی کی جاتی ہے اگر کچھ دھیان بیٹے کی تربیت پر بھی دیا جاے تو مرد کی سوچ بھی قدرِبہتر ہو۔
عبایا ہمارے پاکستانی ثقافت میں تو نہیں فا طمہ جناح نے کبھی عبایا نہیں پہنا۔ یہ تو جب ۱۹۷۰ء میں ضیاء الحق کی حکومت �آئی تو سعدی عرب سے عبایا کا ٹرینڈ آیا اور اب سعدی علمہ نے فتوع جاری کر دیا کے عبایا پہنا لازمی نہیں اسلام میں اور نہ ہی پردہ کرنا ! وہ تو خود بدلتے دور کے تقاضوں کے ساتھ قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی کوشش میں ہیں۔
ہمارے یہاں کے لوگ اسلام کو صرف اور صرف اپنی من مرضی یا سہولت کے لیے استعمال کرتے ہیں جہاں اپنی سہولت ہو واہاں اسلام اور جہاں عورت کے حقوق کی بات آئی وہاں اسلام کو یکسر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اور یہ بات بھول جاتے ہیں کے اسلام میں عبایا ہے عبایے میں اسلام نہیں!
اب ملالا یوسف ز ئی کو ہی لے لیں جب اسکی ایک مغربی لباس میں تصویر وائرل ہوی تھی تو ہماری قوم نے تہلکامچادیا تھا اور اسکو کافر ہی قرار دے دیا تھا۔ مرد حضرات بھی تو جینز پہنتے ہیں انہیں تو کافر قرار نہیں دیا جاتا ۔ ملالا یوسف زئی کے بارے میں جو جو باتیں سننے کو ملی وہ تو قابلِ ذکر بھی نہیں بس اپنے معاشرے کے لوگوں کی سوچ پر ترس اور رحم ایا اور ذہن میں ان این ۔اجی۔ اوز کا خیال آیا جو عورت کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتیں ہیں یہ تنظیمں اس وقت کہاں ہوتی ہیں جب عورت کی عزت کو اچھالا جاتا ہے۔
ہمارے پاکستانی معاشرے میں رہنے والی خواتین روزمرہ اس قسم کی صورتِ حال سے دوچار ہوتی ہیں خاص طور پر وہ خواتین جو لوکل سفر کرتی ہیں وہ اپنے گھر سے لے کر اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے تک جس قسم کی صورتِحال سے گزرتی ہیں اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے گلی محلے کے لڑکوں سے لے کر بس کنڈکٹر تک عورت کو حراساکرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
کہنے کو تو ہمارا معا شرا ایک مہذب معاشرہ ہے اگر ایسا ہے تو کیوں عورت یہاں محفوظ نہیں ؟ کیوں اِسکو ہر قدم پر ایک مرد کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ بھی محض اس لیے کے وہ دوسرے مردوں سے محفوض رہ سکے کیا یہ ایک ترقی یافتہ ملک کی نشانی ہے؟
مہذب معاشرہ تو وہ ہوتا ہے جہاں عورت کی عزت اس کے لباس سے نہیں ہوتی اور ناہی اس کو قدم قدم پر ایک مرد کا سہارہ محض اس لیے لینا پڑے کے وہ دوسرے مردوں سے بچ سکے۔ مرد کا تعلق چاہیے کسی بھی کلا س سے ہو سوچ ایک جیسی ہی ہوتی ہے اس نے موقع پاتے ہی خواتین کو ہراسا کرنا ہوتا ہے چاہے وہ ہراسا ایکسرے مشین سے بھی سفاق طریقے سے دیکھ کر کرے یا کوئی تھرڈکلاس جملہ کس کر کرے یا جنسی طور پر ہراسا کرے بس اس نے اپنا فرض ادا کرنا ہوتا ہے
مجھے سب سے زیادہ تعجب اس بات سے ہوتا ہے کہ کوئی بھی عورت اپنے ساتھ ہونے والی اس قسم کی حرکت کو ڈسکس تک نہیں کر تی بلکہ اس پر پردہ ڈالنا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ کیوں عورت مردکو حوصلہ دیتی ہے کے وہ کیسی بھی قسم کی نازیبہ حرکت سرانجام دینے کا سوچے بھی۔ عورت کو اپنے حقوق کے لیے خودبلا خوف و خطرہ آواز اٹھانی ہو گی نہ کے کسی کا انتظار کیا جائے کے وہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔
معاشرے میں اپنے مقام کو منوانا ہوگا کہ ہم قابلِ عزت مخلوق ہیں ۔ ہمیں ہماری قابلیت سے جانچہ جاے نہ کے ہمارے لباس سے اور اس بات کو بھی سمجھانا ضروری ہے کہ عزت کا تعلق کردار کی پاکیزگی سے ہوتا ہے نہ کے لباس سے ا ور یہ بات خواتین کو سمجھانا ہو گی اس معاشرے کے مرد حضرات کو۔

تحریر:
سیدہ ثناء بتول کاظمی

http://blogs.dunyanews.tv/urdu/?p=5494

Scroll to Top