“شکر الحمدلله رب العالمین”

بہت خاموش شام تھی سرد ہوا کی سرسراہٹ بھی سنائی نہیں دے پارہی تھی نا امیدی چارو اطراف رقس کر رہی تھی! زندگی میں اتنی ناکامیاں ایک ساتھ کبھی دیکھی نہ تھی! تنہا وجود پچھلے کچھ ماہ کی مسافت سے نڈھال تھا آنکھوں میں انسوں خوشک ہو چکے تھے! میں نے زندگی محسوس کرنے کے لئے ایک لمبی سانس بھری تو تکلیف کی شدت اور بڑھ گئی۔۔۔! زندگی کبھی اتنی بے رحم تو نہ تھی یا تنہا کبھی زندگی گزاری نہ تھی! جب آنکھیں بند کی تو کچھ لانیں یاد آئی جو چند برس پہلے ایک کتاب میں پڑھی تھیں، “جب انسان نہ امید ہو جاے تو وہ خدا کی ان نعمتوں کو گنے جو خدا نے اسکو دے رکھی ہیں” میں نے اچانک سے آنکھیں کھولیں اور نعمتوں کا شمار کرنا شروع کر دیا، اتنے بدترین دور سے گزرنے کے باوجود بھی میں ایک نوجوان خوبصورت اور تندروست عورت تھی، خدا نے مجھے کسی کا محتاج نہیں بنایا تھا، میں باعزت طریقے سے کسی کی محتاج گی کے بغیر  زندگی بسر کر رہی تھی اور جب چاہوں اس جہنم کا حصہ بنے سے انکار کر سکتی تھی، میں علئ تعلیم یافتہ اچھے حسب و نسب سے تعلق رکھنے والی عورت ہوں اور اتنی باشعور ہوں کے کسی بھی انسان کو چوٹکی میں متاثر کر سکتی ہوں، میری ماں نے مجھے ایسی تربیت دی ہے کے میں مشکل سے مشکل حلات میں بھی جی سکتی ہوں اور ہاں میں جی رہی ہوں!!! ہاں میں اپنا من پسند کھا سکتی ہوں جو چاہوں خرید کر پہن سکتی ہوں ہاں میں نے ایک بار پھر آنکھے بدن کر لئی تو کانو میں یہ آواز گونجی
“فَبِأَىِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ” اس ایت نے مانو جیسے میرے سر سے کوئی پہاڑوں جیسا بوج ہٹا دیا ہو! میرے خدا نے مجھے اتنی نعمتوں سے نوازا ہوا ہے تو کیوں میں دل و دماغ پر اتنا بوجھ لیے پھر رہی تھی؟ کیوں اتنی نہ امیدی میرے پورے وجود کو جکڑے ہوے تھی؟ میں اپنے پروردگار کی نعمتوں سے انکار نہیں کر سکتی ہاں جہاں جن کہانیوں کا اختتام ہوتا ہے وہاں نئی کہانیوں کی شروعات ہو جاتی ہے اور یہ ہی زندگی کی حقیقت ہے بس اپنے خدا پر یقین کامل ہونا چاہیے راستے خود بہ خور بنتے چلے جاتے ہیں اور جب میں اپنے تمام تر حلات پر ایک بار پھر غور کیا تو مجھے بہت سارے راستے دیکھائی دیے جو کہ بہت پر سکون اور با وقار تھے جن میں کوئی زلت نہ تھی۔ بشک میرا خدا شہ رگ سے زیادہ قریب ہے اس بات پر یقین اور پختہ ہو گیا۔ پورا وجود جو ٹنوں بوجھ تلے دبا ہوا تھا اب پھول سے زیادہ ہلکا پھلکا لگ رہا تھا چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری شاید میں آج دو برس کے بعد دل سے مسکرائی تھی!  

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top